من اپنا پرانا پاپی ہے
بالاکوٹ میں زلزلے سے پہلے ایک تحصیل لیول کا سرکاری اسپتال ہوا کرتا تھا جو ظاہر ہے کہ اب نہیں ہے۔ دوبارہ یہاں بن بھی نہیں سکتا کیونکہ اس جگہ کو نئی تعمیرات کے لئے خطرناک قرار دے دیا گیا ہے۔ چنانچہ نیا تحصیل لیول کا ساٹھ بستروں کا اسپتال اب بالا کوٹ سے بیس کیلومیٹر دور گڑھی حبیب اللہ میں کویت کے تعاون سے بن رھا ہے۔
کل یعنی چار اکتوبر کو یعنی آٹھ اکتوبر سے چار روز قبل میں گڑھی حبیب اللہ میں اس جگہ پہنچا جہاں یہ اسپتال تعمیر کیا جارھا ہے۔ وھاں مجھے اقبال کا یہ شعر یاد آگیا
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
اس جگہ کی حفاظت بندوق بردار فوجی کررہے ہیں اور سینکڑوں مزدور، مستری، ترکھان، الیکٹریشن وغیرہ سنگا پوری ٹھیکے داروں کی نگرانی میں مستقل لگے پڑے ہیں۔
صوبائی حکومت، تعمیرِ نو کے ادارے ایرا اور فوج اور انتظامیہ کے تمام مقامی وسائل اور توجہ صرف اس بات پر ہے کہ کسی طرح اس پری فیبریکیٹٹڈ اسپتال کی عمارت اس قابل ہوجائے کہ بہتر گھنٹے بعد صدرِ مملکت ٹی وی کیمروں کی جھمجھماہٹ کے سامنے ایک جدید ترین اسپتال کا فیتہ کاٹ سکیں۔
یہاں پر مصروف ایک کارکن نے بتایا کہ اگرچہ اس اسپتال کا سنگِ بنیاد جولائی کے پہلے ہفتے میں رکھ دیا گیا تھا لیکن تین ہفتے پہلے تک یہ جگہ محض ایک ویرانہ تھی اور اب جس پروجیکٹ کو مکمل کرنے میں کم ازکم تین ماہ درکار ہیں، اسے راتوں رات مکمل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
اسوقت زلزلہ زدہ علاقوں میں گڑھی حبیب اللہ اسپتال جیسےکئی شوکیس پروجیکٹ تیار کئے جارہے ہیں اور ان میں سے کچھ پائیداری کے اعتبار سےاس حویلی کے سیٹ کی طرح ہیں جو لاکھوں روپے کے صرفے سے راتوں رات کھڑے ہوتے ہیں اور فلم کی شوٹنگ مکمل ہوتے ہی ٹوٹ جاتے ہیں۔
میں اس بارے میں خاصا کنفیوز ہوں کہ کیا زلزلہ زدہ علاقوں کی تعمیرِ نو کا زمہ دار ادارہ ایرا واقعی تعمیرِ نو میں سنجیدہ ہے یا بین الاقوامی امدادی اداروں اور حکومتوں کو تعمیرِ نو کی فلم دکھانے میں زیادہ دلچسپی رکھتا ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
جناب وسعت اللہ خان صاحب، خدا آپ کو سلامت رکھے ۔۔
آپ کے پچھلے دو کالمز ۔۔ آٹھ اکتوبر فيسٹيول اور ’اساں اس رات دی نئی ويکھنی سوير وے‘ ہی بہت تھے کہ جس ميں آپ نے انتہائی دردمندی اور سچائی جس بہادری سے دکھائی کہ آپ نے ايک اور کڑوا سچ تحرير فرما ديا ۔۔
اب کيا گلہ کريں کہ مقدر ميں کچھ نہ تھا
ہم غوطہ زن ہوئے تو سمندر ميں کچھ نہ تھا
جيسے جيسے آٹھ اکتوبر کی برسی قريب آرہی ہے ، حکمرانوں کے لہو اور بيانات ميں پھر سے جوش برپا ہورہا ہے ۔۔ بہت کچھ کيا ہے اور بہت کچھ کريں گے ، وہی گھسے پٹے جملے ، ہر سچی بات کی نفی صرف اپنی بات سچ !
يہ حکم ہے کہ اندھيرے کو روشنی سمجھو
ملے نشيب تو کوہ و دمن کی بات کرو
اسی طرح سچی جھوٹی امدادی تنظيميں پوری تياری کے ساتھ طرح طرح کے ٹی وی چينلز پر جلوہ افروز ہيں ، چوبيس گھنٹے ہاٹ لائيز کھلی ہيں ۔
دعا ہے کہ ان مصيبت کے ماروں کی خدا ہی مدد کرے اور ان کے دکھوں کا مدوا ہوسکے ۔۔ جو اس سانحے ميں جدا ہوگئے انہيں جنت الفردوس ميں جگہ ملے ، پسماندگان کو صبرِ جميل عطا ہو اور بچے کچے لوگ ايک بہتر زندگی کے خواب کو شرمندۂ تعبير ہوتے ديکھ سکيں ۔
اپنا خيال رکھيۓ گا
دعاگو
سيد رضا
وسعت بھائی آپ کے قلم کی کاٹ پہ داد نہ دينا زيادتی ہوگی مگر وسعت بھائی يہ لوگ آپ کی بات پر دھيان دينے والے نہيں۔ اللہ آپ کو ظالم کے شر سے بچائے، آمين
جس قوم کے سربراہ ہی اتنے ڈرامے باز ہوں تو عوام کا حال پوچھو مت۔ يہ سارے لٹيرے قوم کے، اپنے لیے کروڑوں کے صرف فارم ہاؤس بناتے ہيں اور جن کا حق بنتا ہے ان کے ساتھ اتنا بڑا مذاق۔ جھوٹ بولتے ہوئے ذرا آنکھ ميں شرم نہيں آتی۔ ساری امداد ان سب نے اپنے اکاؤنٹس ميں بھری ہے۔ مشرف پچھلے حکمرانوں کی برائیاں کرتے تھکتے نہيں جب کہ خود کی حکومت نے تو بےايمانی کے ريکارڈز ہی توڑ دئیے ہيں۔ پتہ نہيں اللہ بھی کب کھينچيگا ان کی رسي،
يہ خرابی تو ہمارے تمام حکمرانوں ميں رہی ہے کہ کام سے زيادہ نمودونمائش پر توجہ دی جاتی ہے۔ اتنا پيسا اگر نيک نيتی سے حکومت عوام پر لگائے تو ہم ترقی يافتہ قوم نہ بن جائيں؟ اللہ انہں ہدايت دے۔
مجھے آپ کی کل کي اس ريڈيو رپورٹ سے بےحد دکھ ہوا کہ گزشتہ سال جو ملبہ آپ ديکھ آئے تھے اُسے جُوں کا تُوں پڑا ہوا پايا۔ ابلاغ عالم اور مقامی اخبارات کی شہ سرخياں آج اسی بارے ميں تھيں کہ پاکستانی زلزلہ زدگان ايک اور موسم سرما انہی خيمہ بستيوں ميں گزارنے والے ہيں۔ سخت شرم کا مقام ہے۔ ہمارا الميہ يہ ہے کہ علماء کرام، سياستدان اور ہر با رسوخ فرد سميت مُعاشرے کے وہ تمام سرکردہ لوگ جو ان امدادی کاموں کے لئے عوام الناس کومتحرک کر سکتے ہيں وہ سب ذمہ داري حکومت پر ڈال کر خود فارغ البال ہو جاتے ہيں۔ کيا يہ ملک اکيلے پرويز مشرف کا ہے؟ کيا يہ متاثرين ميرے اور آپ کے کچھ نہيں لگتے؟
جس دن ہميں يہ احساس ہوگيا، اُس دن ہمارے حالات ضرور بدلنا شروع ہو جائيں گے۔
اللہ نے ہمارے وطن کو ہر نعمت سے نوازا ہے ـ معدنیات ، قدرتی گیس ، اجناس ، ٹیکسٹائل ملز ،بہترین فرنیچر ، ہر قسم کے برتن اور اور اور کیا نہیں ملتا یہاں ـ نہیں ہے تو قانون کا احترام نہیں قانون کا ڈر نہیں ـ جسکی لا ٹھی اسکی بھینس ـ
آپ کا بلاگ پڑھ کر مجھے ایک افغان کی یاد آئی جو یہ کہہ رہا تھا کہ کاش ہم پر بھی انگریز حکومت کرتے اور میں یہ کہتا ہوں کہ کاش انگریز اس ملک سے نہ جاتا۔ غفارخان صاحب کی ایک بات سنی تھی کہ وہ کسی جلسے میں کہہ رہے تھے کہ انگریز اگر دودھ، مکھن کھاتا تھا تو لسی ہمیں مل جاتی تھی۔ اب لسی چھوڑ یہ پانی بھی نہیں دیتے۔
اللہ آپ کو صحت کاملہ عطا کرے۔ آپ واقعی اپنے لکھاری ہونے کا حق ادا کر رہے ہيں۔ آٹھ اکتوبر کے زلزلے کے بعد متاثرين زلزلہ کا نقصان تو ہوا ہی ہے مگر ہماری حکومت اور ايسے شيطان صفت لوگوں نے خدمت کے کام پر خوب لوٹا، اور تا حال لوٹ رہے ہيں۔ آج کل خدمت اور اين جی اوز بھی ايک فراڈ بن چکی ہيں۔ لينے والے زيادہ اور دينے والے کم ہو گئے ہيں۔ پھر متاثرين کو ا ن کا حق نہيں مل رہا ۔ اللہ تعالٰی آپ کو جزائے خير دے۔ آپ کے قلم ميں بڑی طاقت اور روانی ہے۔