ہماچل یا سویزرلینڈ
میری بنجارن زندگی کا پہلا پڑاؤ ہماچل پردیش میں پڑا جس کو دیکھتے ہی میں نےنام بدل دیا۔
ہماچل کا نیا نام بھارتی سوئزرلینڈ ہوگا۔ اس لیے نہیں کہ پہاڑوں یا وادیوں کی وجہ سے یہ خوبصورت ہے۔ جی نہیں یہ کشمیر کی خوبصورتی سے مقابلہ نہیں کرسکتا مگر زبان ثقافت اور رہن سہن کے لحاظ سے اسکا موازنہ سوئزرلینڈ سے کیا جاسکتا ہے۔
جس طرح اس چھوٹے سے ملک پر اسکی سرحدوں پر واقع دوسرے ملکوں کی زبان اور ثقافت نے اپنا گہرا اثر ڈالا ہے، اسی طرح ہماچل پر پنجاب، ہریانہ اور جموں کی گہری چھاپ ہے۔ ایک علاقے میں اگر لوگ پنجابی بولتے ہیں تو دوسرے میں ڈوگری جیسے سوئزلینڈ کے مختلف علاقوں میں جرمن، فرنچ اور اطالوی وغیرہ بولتے ہیں۔
کشمیر میں علحیدگی پسند تحریک شروع ہونے کے بعد ہماچل سیاحتی سرگرمیوں کا خاصا مرکز بنا جس پر کشمیر میں سیاحت سے جڑے تاجروں نے ناراضگی بھی ظاہر کی مگر اس علاقے میں ان پندرہ برسوں میں کافی ترقی ہوئی ہے۔ دھرم سنگھ پٹھانیہ جو ضلع پریشد کے نائب چیئرمین ہیں کہتے ہیں:
’ہماچل کی نہ اپنی زبان ہے اور نہ اپنی ثقافت، بس ایک مشرن یا مکسچر ہے جو ہرآنے والا محسوس کر سکتا ہے‘۔
ہماچل میں آتے ہی آپ کو بھارت کی ایک تصویر ضرور نظر آتی ہے مگر اس تصویر میں ابھی وہ رنگ نہیں بھرے گئے ہیں جن سے اس کی خوبصورتی اور دوبالا ہوسکتی ہے۔
تبصرےتبصرہ کریں
محترمہ نعيمہ مہجور صاحبہ ، آداب
آپ نے خوب صورت جگہوں کے بارے ميں لکھا ۔۔ اچھا لگا ۔
ہما چل پرديش ہو ، سوئزرلينڈ ہو ، کشمير ہو يا کوئ ريگستان ، سب جگہيں خوبصورت ہيں ، حسين ہيں ، اگر ہمارے دل خوبصورت ہوں ۔اور سچے ہوں اور پيار سے بھرے ہوں ۔۔
ہرطرف پھيلے اجالا پيار کا
ايک چراغ ايسا بھی جلنا چاہيۓ
دعا گو
سيد رضا
برطانيہ
نعيمہ جی آپ کاآج کابلاگ حقيقت ميں کا فی مفيد اور معلوماتی لگا کہ ہم بالکل ايک ايسی جگہ کے متعلق پڑھ رہے ہيں جس کے بارے ميں ہم پہلے سے نہيں جانتے تھے اور واقعتاْمجھے يہ سب کچھ بہت اچھا اس وجہ سے محسوس ہو رہا ہے کہ ہماچل کے متعلق صرف پڑ ھاہی ہے آپ آنکھوں ديکھی کہيں گی اور ظاہر ہے سنی سنائ اور ديکھی ميں بہت فرق ہوتا ہے ،کشمير کی خوبصورتی تو پکی بات ہے مانی ہوئ ہے اور سوئٹزر لينڈ کی خوبصورتی کے بھی چرچے ہيں ليکن آج کا بلاگ نا جانے کيوں نا مکمل سا لگ رہا ہے نا مکمل آپ کے لکھنے کی وجہ سے نہيں ہے بلکہ دل چاہ رہا ہے کہ ہماچل پر کچھ اور آپ کی زبانی پڑ ھنے کو ملتا تو اور زيادہ اچھا ہوتا ليکن ايک بات يہ بھی کہيں سے علم ميں آئ تھی کہ اگر کہيں کچھ تشنگی محسوس ہو تو يہی لکھنے والے کی خوبی ہے کہ آپ کا دل چاہے کاش کچھ اور بھی ہوتا يہی لکھنے والے کی کاميابی بھی ہے اور تحرير کی خوبصورتی بھی کہلاتی ہے اور اب ہم آپ سے اس موضوع پر کچھ اور بھی پڑھنا چاہتے ہيں کہ تشنگی محسوس ہو رہی ہے کيوں؟زبان کے متعلق بھی لکھنا چاہيۓ تھا کہ جس چيز کے متعلق آپ نا جانتے ہوں تو خواہش ہوتی ہے زيادہ جاننے کی فطری بات ہے اور جو بات آپ نے سب سے آخر ميں کہی کہ کہ ہماچل ميں آتے ہی آپ کو بھارت کی ايک تصوير نظر آ ۓ گی شايد ہم نے بھارت بھی نہيں ديکھا سواۓ فلموں کے سو يہی وجہ ہے کہ ہمارے تصور کی آنکھ ميں حقيقت کے رنگ نہيں بھرے جا رہے اور اس خوبصورتی کے رنگوں ميں ہو سکتا ہے آپ کے کچھ اوررنگ مليں تو اور بھی بہت کچھ کہا جا سکے گا
دعا گو
شاہدہ اکرم
اسلام عليکم نعيمہ جی
بلاشبہ انڈ يا ميں ہماچل ہو شملہ ہو يا پاکستان ميں مری کاغان يہ سب سويزر لينڈ کے برابر کے حسين ہيں ليکن سويزرلينڈ کو اس لے پسند کيا جاتا ہے کيونکہ يہ جگہ devolopedہے مگر ھمارے ہاں چاہے ہماچل ہو يا مری سہوليات کا فقدان ہے
اپ کو يقين نہيں اے گا ليکن تہ سچ ہے کے ملکہ کوہسار مری ميں اب تک قدرتی گيس ہی نہيں پہنچی لوگ سلينڈ روں سے کام چلاتے ہيں اورشمالی علاقہ وہاںکی سڑ کيں اف توبہ اگر ہماری حکومتيں ان علاقوں پر مناسب توجو ريں تو دنيا سوئزرلينڈ کو بھول جاے نعيما جی اگراب کا پاکستان آنا ہو تو اپ مری ٹھنڈ يانی شنگریلا بھوربن ضرور جاے گا يہاں پر اچھی قيام و طعمام کی سہوليات اچھی ہيں اور لوگ بھي مہمان نواز ہيں
اسکے علاوہ ٹيکسلا منگلا فورٹ روہتاس فورٹ کھيو ڑہ کی نمک کی کانيں شاہي قلعہ کٹاس کے مندر ديکھنے کے قابل ہيں
نعيمہ صاحبہ آداب
آپ نے ہماچل کی جس انداز میں تعريف کی ہے، یہ اس کا حق ہے۔ کشمیر جب گرداب ميں گھرا تو حسن کے متلاشوں نے ہماچل کی گود میں حسن کو ڈھونڈ ہی ليا۔ ہماچل پر مختلف علاقوں کی چھاپ ہے اس سے ميں اتفاق کرتا ہوں مگر آپ یہ نہ بھولیں کہ ہماچل کی تہذیب، ہماچل کی انفراديت اور وہاں کا حسن اپنے آپ ميں منفرد ہے اور اس کو کسی سے جوڑ کر ديکھنا شايد اس کی انفراديت اور اس کی روايت کو چراغ دکھانے جيسا ہو۔-
دُنيا کے تقريبا” تمام ترقی يافتہ شہروں ميں ايک قدر مشترک، وہاں پائي جانےوالي رنگارنگ تہذيبوں کا امتزاج ہےجس سے باہمي آگہی اور رواداری کا ايک ماحول پروان چڑھتا ہے- انواع الاقسام کي قوميتوں کےلوگ اپني انفرادي مُعاشرت، علم اور ہُنرمندی سے علاقےکي رونق ، ثقافت اور مُعاشي سرگرميوں کےفروغ کا باعث بنتےہيں- ہمارے گردونواح ميں کراچي ، مُمبئي اور دوبئي اسکي واضح مثاليں ہيں-
Naeema ji himachal ka Switzerland say comparison kaafi acha laga.
Naeema Sister
Asslamo Alikum
Yeh to humari khushbakhti hai keh Bar-e-sageer (Sub Continet) main Allah ne iss qadar khoobsurati aur qudratiii husn rakh diya hai keh iss ka mukabla hi nahi. App ne tho phir bhi iss ko Swiss kay sath mila diya hai, app acha safur likh rahi hain, likhti rahain.
آپ نے اچھا کيا جو انڈيا کے تفريحی مقامات کاذکر کيا۔ پاک وہند ميں سينکڑوں قابل ديد مقامات ہيں جہاں سياحت کا کاروبار چمک سکتا ہے مگر ضرورت ماحوليات کی حفاظت / بچاؤاور ارتقاء کی ہے جس واسطے قانون سازی اور عمل در امد لازمی ہے۔ کشمير کاحسن 1960 کی ہيپی تحريک کے بعد مسلسل ماند پڑتا گيا۔ اب تو کہتے ہيں کشتيوں کی بہتات نے جھيل پر آلودگی کی چادر پھيلادی ہے۔ نيلا اور تازہ پانی ماضی کی بات ہوچکي۔ خدشات ہيں کہ ايسا ہی ہماچل کے ساتھ بھی ہونے والاہے۔
نعيمۂ آنٹی آپ کو اس بلاگ پر ہماچل کی تصويروں کا لنک دينا چاہئے تھا ،اللہ نے دنيا ايک جيسی خوبصورت بنائ ہے ليکن ترقی ہم اللہ کے بندوں نے خود پر حرام کی ہوئ ہے، پچھلےسال ھم لوگ نتھياگلي،ايوبئۂ گۓ تھے اتنی حسين جگۂ کے پوچھو مت ليکن کچرا اتنا کے اسکے سامنے کراچی کی سی ويو اور لاھور کے مينارپاکستان کا کچرا کچھ نہيں، صرف صفائ کی ضرورت ہے جو کے صرف حکومت نہيں ہم سب پر فرض ہے: